تحریر: اسراراحمدادراک
۱ ۔ اردو ادب اور بے ادبی
ادب کی بہت سی الگ الگ شاخیں ہیں۔ پاکستان میں جاسوسی ادب سب سے زیادہ پڑھا جاتا رہا ہے۔ اس میں ڈائجسٹ اور تراجم بھی شامل ہیں۔ کم پڑھے جانے والے ادب میں ادبِ عالیہ شامل ہے۔ اس کی تشریح کے لیے عالیہ اور عظمی کا حوالہ کافی ہے!!
جاسوسی ادب میں سائنس فکشن اور ایڈونچر واقعات اس کی دلچسپی اور خوبصورتی بڑھا دیتے ہیں جس کی وجہ سے بچوں کی دلچسپی اس میں زیادہ ہوتی ہے کیوں کہ وہ آزاد ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ ہالی ووڈ کی فلموں کا مواد بالعموم ایسی کہانیوں سے لیا جاتا ہے۔
چونکہ اس شعبے میں امیجینیشن ہر پابندی سے آزاد ہوتا ہے اس لیے عالم تخلیق کے علاوہ پیرالیل یونیورس کے حقیقی واقعات خوابوں اور تصور کی مدد سے تخلیق کار وجود میں لے آتا ہے۔ (یہ بات مجھ سے پہلے کسی نے نہیں بتائی یہ نوٹ کر لیں اس پر آگے چل کر مزید بات ہو گی!!!)
ادبِ عالیہ و عظمی میں سماج اور زمانے کے حوالے سے مختلف طبقات کی نفسیات, حالات اور مسائل کو خوبصورت تحریر میں محفوظ کیا جاتا ہے۔ اس میں زبان و بیاں پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر منشی پریم چند , کرشن چندر, غلام عباس , منٹو کے افسانوں میں ان کے زمانے کی اتنی گہرائی سے تصویر کشی کی گئی ہے کہ ایک حساس دل پڑھے تو اسے سچ مچ کی ٹی بی لاحق ہو جائے!!
میں ایسا حقیقی ادب پڑھنے سے اسی لیے احتراز کرتا ہوں کیوں کہ میری امیجینیشن کی اڑان بہت زیادہ ہے جس باعث مجھے ڈر ہوتا ہے افسانہ ختم ہونے سے پہلے میں خود بڑی سی ایک خون کی الٹی کر کے جان بحق نہ ہو جاؤں !!
لیجیے جناب ۔۔۔ ہو گئی نا بے عزتی عالیہ اور عظمی دونوں کی۔بھلا ایک سائنس فکشن ادیب سے آپ کیا امید لگا بیٹھے تھے؟؟
تاہم میرا ذاتی خیال ہے کہ ایسا ادب تخلیق کیا جاۓ جو پیرالیل یونیورس سے جڑے ہونے کے ساتھ ساتھ ادبِ عالیہ و عظمی سے بھی جائز یا ناجائز رشتہ رکھتا ہو۔ یعنی ہر سطح کے ادب میں اس کتاب کو رکھا جا سکے۔
میرا مطالعہ شائد زیادہ وسیع نہیں اس لیے میں نے اب تک ابن صفی مرحوم کو ہی دیکھا جن کے ناولوں میں فکشن, ایڈونچر ,سماجی نفسیات اور زمانہ سب کچھ یکجا تھا۔
۲ ۔ ابنِ صفی مرحوم کے کردار
ابن صفی مرحوم عالمی سیاست اور معاشرتی انفرادی نفسیات پر نظر رکھتے تھے۔ ان کے کردار بالخصوص کیپٹن حمید اور عمران ایک خاص نفسیاتی شخصیت کا مظہر ہیں۔ کرنل فریدی ایک زیرک سراغرساں جو اپنے گہرے مطالعے کے سبب کیپٹن حمید کی شخصیت کو سمجھ جاتا ہے اور اس کی کمزوریوں کجیوں کو خوبصورتی سے استعمال کرتا ہے۔
فریدی حمید, انور رشیدہ, ایرج عقرب, شرجیل شارق ۔۔۔ یہ سب کردار طلسم ہوشربا کے امیر حمزہ عمرو عیار کا تسلسل ہیں۔ اس بارے ابن صفی مرحوم نے ایک بار لکھا تھا طلسم ہوشربا سے انہوں نے بہت کچھ سیکھاجو کسی نے نہیں سیکھا۔
عمروعیار اور اس کی عیار ٹیم اسلامی لشکر کے سربراہ امیر حمزہ کے ماتحت سیکرٹ سروس کے طور پر کام کرتی ہے جو ایک سپر پاور طلسم ہوشربا کے مقابلے میں امیر حمزہ کا سب سے بہترین ہتھیار ہے ۔ حلیہ بدلنے کے علاوہ عمرو کے پاس کچھ جادوئی ہتھیار ہیں جنہیں جدید ترین سائنسی ہتھیار بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ ساری خصوصیات سیکرٹ ایجنٹس میں پائی جاتی ہیں۔
یاد رہے قدیم داستان گو بنیادی طور پر سائنس فکشن ادیب تھے البتہ "سائنس” کا لفظ ان کے پاس موجود نہیں تھا جس کی جگہ انہوں نے لفظ "جادو” استعمال کیا۔
مثال کے طور پر محمد حسین جاہ کے مطابق میں اس وقت افراسیاب کے طلسمی آئینہ میں یہ تحریر انگلی کے اشارے سے لکھ رہا ہوں۔ اور یہ تحریر طلسم ہوشربا کے مختلف علاقوں میں جادوگروں تک جادو کے زور سے پہنچ جائے گی۔
بلاشبہ طلسم ہوشربا کئی لحاظ سے ایک غیرانسانی تصنیف معلوم ہوتی ہے۔ لیکن روایتی گڑ مسالے کے اندر سے اصل کہانی نکالیں تو اس کے تانے بانے بھی پیرالیل یونیورس سے جڑے ہیں جس کے ساتھ غیر معمولی حساس افراد خوابوں, مکاشفات، اور گہرے استغراق کی مدد سے رابطہ قائم کر لیتے ہیں۔
ایک اعلی ادیب وہ ہوتا ہے جس کا استغراق مراقبے کے لیول کا ہو ۔ وہی غیرمعمولی تصنیفات کر سکتا ہے۔
مثال کے طور پر علامہ اقبالؒ کے بارے میں ایک خواب کے دوران ان کی والدہ محترمہ بتا رہی تھیں کہ یہ کچھ تحریر کرنے سے پہلے بالکل بیہوش بے خبر ہو جاتے ہیں۔ پھر ہوش میں آ کر لکھتے ہیں۔
علامہ اقبالؒ کا لیول استغراق سے بہت آگے مراقبہ اور روحانی پرواز تک تھاجو اپنی جگہ ایک کمال ہے۔ اب کچھ دیر کے لیے فرض کر لیں کسی سائنس فکشن ادیب کے پاس یہی صلاحیت ہو تو وہ ایسی کہانیاں نکال لائے گا جو دنیا کے کسی اور مصنف کے لیے ممکن نہیں۔لیکن یہ نایاب چیز ہے اور اس کی شرائط بڑی سخت ہیں۔یہ کوئی مذاق نہیں۔
۳ ۔ تہہ دار شخصیت
بات دور نکل گئی واپس ابن صفی مرحوم کی طرف آتے ہیں۔۔۔۔ان کا سب سے غیر معمولی کردار بلا شبہ عمران ہے۔
عمران کے اندر انہوں نے ایک دہری شخصیت کا انتہائی کامیاب تجربہ کیا ۔ وہ حمید بھی ہے اور فریدی بھی۔ یعنی امیر حمزہ بھی ہے اور عمروعیار بھی۔یہ انوکھا کردار آج تک کا برصغیر کا سب سے مقبول ہیرو ہے۔ علی عمران مقبولیت میں عمرو عیار سے آگے دکھائی دیتا ہے۔
یہ کوئی غیر حقیقی بات نہیں۔ میں اپنی زندگی میں ایسے بہت سے لوگوں سے مل چکا ہوں جو تہ در تہ کئی شخصیات کے مالک ہیں۔
آپ خود ابن صفی کو دیکھ لیں۔ وہ ایک شاعر تھے جن کا نام اسرار ناروی تھا۔ وہ طغرل فرغاں نامی مزاح نگار تھے۔ وہ ابن صفی تو تھے ہی۔۔۔ لیکن اسراراحمد بھی تھے۔
ساتھ ان کا یہ فرمان یاد کریں۔مجھے میرے ناولز میں تلاش کریں میں وہیں ملوں گا۔ یعنی ابن صفی کی جو شخصیت ان کے ناول پڑھ کر بنتی ہے اسراراحمد اس سے مختلف ہیں۔ ملاقات اسراراحمد سے ممکن تھی لیکن ابن صفی سے نہیں۔کیوں کہ ابن صفی اپنی ایک الگ دنیا کے مالک تھےجس تک پہنچنے کا راستہ یا پورٹل ان کی کتابیں تھیں۔
یہ ہر مصنف کا مسئلہ ہے۔ جو اپنی تحریر میں چست و چالاک, چاک و چوبند ,حاضردماغ دکھائی دیتا ہے اصل زندگی میں ایک تھکا ہوا آدم بیزار بوڑھا بھی ہو سکتا ہے۔
مقبولیت کی بات کریں تو سراغرسانوں اور سیکرٹ سروس کی دنیا میں شہرہ آفاق کردار شرلک ہومز,پیری میسن, ہرکوئل پوئرو,جیمز بانڈ کے مقابلے کی شہرت اردو دنیا میں عمران سیریز اور جاسوسی دنیا کو حاصل رہی۔اردو فکشن کی دنیا میں امیر حمزہ,عمروعیار ,میاں آزاد اور خوجی سے بھی بڑھ کر جسے شہرت حاصل ہے وہ علی عمران ہے۔
اس میں ایک بڑا حصہ ان مصنفین کا بھی ہے جنہوں نے بنا اجازت عمران سیریز لکھی۔ ہم ان سے لاکھ اختلاف کریں لیکن ان ہزاروں ناولز کو نظرانداز نہیں کر سکتے جنہوں نے لکھنے والوں کو تو کسی بلند مقام پر نہیں پہنچایا لیکن علی عمران کی مقبولیت وہاں تک پہنچا دی جہاں لوگ تعلیمی پسماندگی کے سبب کچھ معیاری پڑھنے کی قابلیت سے محروم تھے۔
۴ ۔ پرانے کردار نئے مصنّفین
یہ حقیقت ہے کہ یہی مصنفین شرلک ہومز, پوئرو یا جیمز بانڈ کو پکڑ لیتے اور ان پر لکھ لکھ کر ڈھیر لگا دیتے تو آج علی عمران کے ساتھ ہمیں پوئرو وغیرہ کا بھی نام لینا پڑتا۔ لیکن ایسا اس لیے نہ ہوا کہ وہ ایک الگ علاقائی, جغرافیائی پس منظر رکھتے تھے۔انہیں مقامی طور پر ہضم کرنا ذرا مشکل تھا۔
مغربی کرداروں میں سے ٹارزن ہی پاکستانی مصنفین کے قابو آیا۔ اور مجھے بچپن میں پڑھی ہوئی کہانیاں یاد ہیں جن میں ٹارزن "سفید فام” دشمنوں کو للکار رہا ہوتا ہے اور لکھنے والے یہ بھول جاتے تھے کہ ٹارزن خود بھی ایک سفید فام مصنف کا سفید فام ہیرو ہے۔
افریقہ کے جنگلات میں ہزاروں سیاہ فام ٹارزن ممکن تھے لیکن ایڈگررائس بروز نے گورا ٹارزن افریقہ پہنچانے کے لیے ایک جہاز وہاں گرایا جس میں ایک انگریز بچہ زندہ بچ گیا۔ لیجنڈ باکسر محمد علی نے بھی اس بات کا ذکر کیا تھا کہ گوروں کے لیے کالا ہیرو قابلِ قبول نہیں ہے۔
پاکستانیوں نے سکس ملین ڈالر مین کی بھی عمران سیریز بنانے کی کوشش کی اور میرے بچپن میں سکول کی کاپیوں کا کور بننے والا کرنل سٹیو آسٹن ٹارزن کے شانہ بشانہ بھی لڑتا دکھائی دیا۔ایک مصنف نے ٹارزن اور انوکی کی ریسلنگ بھی کروا دی۔ لیکن یہ سب کردار ہینڈل کرنے ذرا مشکل تھے۔
ستر اور اَسی کی دہائی میں بچوں کی کہانیاں لکھنے والے بہر حال میچور لوگ تھے لیکن نوے اور سن دوہزار کے بعد ہلکی ہلکی سبز مونچھوں والے رائٹر آ گئے۔ یہ اپنا آغاز ٹارزن اور عمرو عیار کی کہانیوں سے کرتے اور ان کا نقطہ کمال عمران سیریز تھی۔ ان سب کا استاد پاکیشیا کا ایک عظیم مصنف تھا!!
متعارف کروانے والے پبلشنگ ادارے نے انہیں مجبور کر رکھا تھا کہ ٹارزن ,عمرو عیار اور علی عمران کے علاوہ کچھ سوچنا بھی نہیں۔ ادھر پاکیشیا کا عظیم مصنف بڑھاپے کی ایسی منزل پر جا پہنچا کہ زیادہ لکھنا ممکن نہ تھا چناچہ ہونٹوں پر ذہانت آمیز سبزے والے نئے نویلے نوجوانوں نے مل کر یہ ذمہ داری سنبھال لی۔ یقیناً ذمہ داری تو نئی نسل نے ہی سنبھالنی ہوتی ہے آخر۔
دھڑا دھڑ ناول چھپتے رہے فروخت ہوتے رہے ۔اصل لکھنے والوں کا نام ان پر نہیں تھا۔انہیں صرف معاوضہ مل جاتا تھا۔ نام سینیئر پاکیشیائی رائٹر کا چلتاتھا۔
اس سے پہلے ابن صفی مرحوم کو پڑھنے والے باآسانی شفیق الرحمن,ممتاز مفتی,محمد خان,ضمیر جعفری,اے حمید,قدرت اللہ شہاب,صدیق سالک,قرة العین حیدر,بانو قدسیہ,منٹو,مستنصر حسین تارڑ,اشفاق احمد کو بھی ساتھ ساتھ ہی پڑھ لیتے تھے کیوں کہ ابن صفی ایک ایسا مرج البحرین تھے جہاں سے ہر سطح اور جہت کا راستہ نکلتا تھا۔ وہ انجانی دنیا کی جانب ایک سٹار گیٹ کی مانند تھے۔
اگرچہ پاکیشیائی مصنفین کا یہ کارنامہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ انہوں نے مطالعے کے رجحان کو فروغ دیا کرائے پر ناول پڑھنے کا کلچر متعارف ہوا۔ گلیوں بازاروں میں بے شمار لائبریریاں ان کی مرہون منت تھیں۔ اس بات پر انہیں خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے۔لیکن دوسری طرف پاکیشیا کے عظیم مصنف اور اس کے پبلشر نے نوجوانوں کے گلے میں ایک ایسا آسیبی پٹا ڈال دیا کہ وہ سر اٹھا کر گھما کر ادھر اُدھر دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئے۔ ان پبلشرز نے بچوں کے لیے تو نئی سیریز نئے کردار متعارف کرا دیے لیکن بڑوں کو عمران سیریز تک محدود رکھا۔یوں ان کے ذہن مفلوج ہو گئے ان کا ذوقِ مطالعہ ایک جگہ رک گیا۔ وہ آج بھی انہی ناولوں کو بار بار پڑھ رہے ہیں۔
ابن صفی مرحوم کے اثرات قارئین پر یہ ہیں کہ ان کا ذہن آزاد ہے وہ سب کچھ پڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اگرچہ اکا دکا ایسے مل جاتے ہیں جنہوں نے عشق کا ڈھول گلے میں ڈال رکھا ہے تاہم اسے بجانے کے ڈھب سے ناواقف ہونے کے سبب خالی ڈھم ڈھم پہ ان کا گزارا ہے۔
یہ اس دنیا کی سب سے بڑی ٹریجڈی کہی جا سکتی ہے کہ جہاں بھی کسی شخصیت,مذہب,ملت,ملک کے حوالے سے شدید محبت کا دعوی کیا جاتا ہے اس دعوے کی حقیقت ڈھول کے سوا کچھ نہیں نکلتی۔ جس کی آواز تو بہت ہوتی ہے لیکن اندر سے خالی ہوتا ہے۔
مختلف مذہبی انتہا پسندوں محبت کے دعویداروں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
اگر ایک رائٹر کی تخلیقات آپ کو مزید مطالعے پر مجبور نہیں کرتیں ,آپ کے تجسس کو جلا نہیں دیتیں تو اس کا مطلب ہے وہ مصنف شدید خود پسندی ,غرور اور تعصب کا شکار ہے اور لامحالہ اس مصنف سے محبت کرنے والے بھی ایسے ہی ہوں گے۔ پنجابی کا یہ مصرعہ ایک روحانی قانون بتاتا ہے کہ۔۔۔ رانجھا رانجھا کردی میں آپے رانجھا ہوئی۔ انسان اسی جیسا ہے جس سے بہت محبت کرتا ہے۔
۵ ۔ ابنِ صفی کی دنیا
ابن صفی مرحوم کے بعد کوئی ایسا تخلیق کار سامنے نہ آیا جو کوئی نیا تجربہ کرنے کا اہل ہوتا۔ ماسوا ایچ اقبال اور ان کا کردار پرمود۔ پرمود کے کردار کو لوگ فلم "ڈاکٹر نو” کی کامیابی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔
اس میں شک نہیں ہالی ووڈ کی فلمیں ہمیشہ سے دنیا بھر کے فکشن رائٹرز کو متاثر کرتی رہی ہیں۔ کاؤبوائز کی فلموں کے اثرات جاسوسی دنیا اور عمران سیریز میں شکرال ,کراغال ,مقلاق کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔
ہیٹ, اوور کوٹ, سگار,پائپ وغیرہ سب ہالی ووڈ کے شعوری, غیر شعوری اثرات تھے۔ لیکن یہ صرف ہالی ووڈ کی بات نہیں دراصل پچاس کی دہائی میں مغربی فیشن موجودہ زمانے کے مغربی فیشن سے زیادہ مقبول تھا۔
پرمود یقیناً ڈاکٹر نو سے برآمد ہوا لیکن یہ بات یاد رہے کہ سیکرٹ سروس اور سیکرٹ ایجنٹ جس ملک سے بھی ہو وہ اسی قسم کا ہیرو ہوتا ہے جیسے پرمود یا جیمز بانڈ۔
مثال کے طور پر دنیا کے کسی بھی ملک قوم میں اگر کہانی کا ہیرو ایک پولیس انسپکٹر ہے تو پوری کہانی میں قتل کی تفتیش ,فنگر پرنٹس اور جرح وغیرہ کا سلسلہ دکھائی دے گا اسی دوران کوئی ہیرو کی گردن پر ہاتھ مار کر کچھ دیر کے لیے بیہوش بھی کر دے گا ہوش میں آنے کے بعد وہ یا تو سڑک پر پڑا ہوتا ہے یا رسی سے بندھا خود کو بے بس پاتا ہے۔ یہ واقعات سراغرسانی والے ناولز کا لازمی حصہ ہیں چاہے وہ امریکہ میں لکھے گئے ہوں چاہے جاپان ,چین, رومانیہ, تنزانیہ ,جرمنی,فرانس, اٹلی , بلجیئم یا پاکستان وغیرہ۔
اس بات پر کاپی کرنے کا الزام نہیں لگایا جا سکتا ۔ ارے بھئی جاسوسی ناول میں اور ہوتا کیا ہے۔
زمانہ آگے بڑھ گیا ہے۔ میری خواہش تھی ایسے ناول لکھے جائیں جو ادبِ عالیہ, عُظمی اور سپنا تینوں کے آگے رکھے جا سکیں۔ مجھے یقین ہے اگر ابن صفی مرحوم کو اللہ تعالی عمرِ دراز عطا کرتے تو وہ بھی اسی نتیجے پر پہنچتے بلکہ سچ یہ ہے کہ ان کے ناول بتدریج ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے ایک بہت عمدہ صورت اختیار کرتے جا رہے تھے۔ ان کا پہلا ناول دلیر مجرم دیکھیں اور اس کا تقابل جاسوسی دنیا کے آخری ناول صحرائی دیوانہ سے کریں تو اندازہ ہو گا تمام کرداروں کی شخصیات تیسویں ناول سے صحرائی دیوانہ تک پہنچتے پہنچتے بہت خوبصورت ہو چکی تھی۔
اگرچہ جاسوسی دنیا بتدریج حمید سیریز بن چکی تھی کیوں کہ فریدی کا کردار اس قدر جامعیت اختیار کر چکا تھا کہ مسلسل اس پر لکھنا بھاری مشقت سے کم نہ تھا چناچہ زیادہ واقعات حمید کے حصے میں آتے تھے تب کئی ناول ایسے لکھے گئے جن میں فریدی اچانک نمودار ہو کر مجرم کو بلی کے بچے کی مانند پکڑ لیتا۔ بعض اوقات تو مہمان کردار معلوم ہوتا لیکن اس کے باوجود داد دینی پڑتی ہے کہ وہ پورے ناول میں چھایا ہوا دکھائی دیتا۔فریدی کردارنگاری کا نقطہ کمال تھا۔
ذاتی طور پر میرا پسندیدہ کردار ہمیشہ کرنل فریدی رہا ہے اور جاسوسی دنیا میری پسندیدہ سیریز بچپن میں بھی تھی اور آج بھی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ مقبول ترین عمران سیریز کے مقابلے میں جاسوسی دنیا نسبتاً زیادہ سحرانگیز تھی۔ تارجام,ٹیکم گڑھ,رام گڑھ وغیرہ پوری ایک دنیا تخلیق کی تھی ابن صفی مرحوم نے۔ برف کے بھوت,چاندنی کا دھواں,خونی بگولے,زمین کے بادل ,خونی ریشے,تیسری ناگن, ریگم بالا,ایسے ناول تھے جو عمران سیریز کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔
پاکیشیائی مصنفین کے زیادہ تر عمران سیریز لکھنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ فریدی پر لکھنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں تھا۔ جس نے بھی لکھا وہ سنبھال نہ سکا۔
کبھی فرصت سے جاسوسی دنیا اور عمران سیریز کے بہترین ناولوں پر تبصرہ لکھنا ہے( کئی برس پرانا ارادہ ہے)
1980 تک کا زمانہ جاسوسی ناولوں کے لیے بہترین تھا۔تاہم نئے تقاضوں کے ساتھ ابن صفی مرحوم کے موضوعات میں تبدیلی آ رہی تھی۔ عمران سیریز اور جاسوسی دنیا کے آخری بیس ناولوں کو دیکھیں تو سائنس فکشن , عالمی سازشوں کا تذکرہ زیادہ ملے گا۔
آخری ناولوں میں روایتی جرائم پیشہ افراد کی بجائے منظم تنظیمیں اور غیرمعمولی جرائم پیشہ کردار سامنے آتے ہیں۔ اگرچہ ان کا آغاز شعلہ سیریز کے زمانے سے ہو چکا تھا۔
جاسوسی دنیا کے 125 ناولوں میں تقریباً 104 کہانیاں پیش کی گئیں۔ عمران سیریز کے 120 ناولوں میں 73 کہانیاں پیش کی گئی تھیں۔۔
۶ ۔ نئے مصنّفین نئی نگارشات
نئے ادیب ابن صفی مرحوم سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
جس طرح کا آپ مطالعہ کرتے ہیں اسی طرح لکھنا ایک خواہش بن جاتی ہے ۔ مثال کے طور پر میں نے جب بھی کہانی لکھنے کا سوچا ابن صفی ایک آئیڈیل کے طور پر سامنے آن کھڑے ہوتے۔ہر چاہنے والے کے سامنے کوئی بت موجود ہوتا ہے۔ بے شک وہ کعبہ کی جانب منہ کیے رکھے۔
لیکن خیر۔۔۔میں بہت محتاط تھا مجھ پر کاپی یا ٹھپہ ساز جیسا الزام نہ آئے۔ حتی الامکان ان سے ہٹ کر لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ چناچہ میرے ناولوں میں ابن صفی مرحوم کی چھاپ نہیں ملے گی لیکن ان کی طبیعت ضرور ملے گی۔
چھاپ جیسے الزامات سے بچنے کے لیے میں نے لکھنے سے پہلے فیصلہ کر لیا تھا روایتی جاسوسی ناول لکھنے ہی نہیں چناچہ میں نے ایک بالکل نئی اور الگ جہت تلاش کی۔
جاسوسی ناولوں کے عمومی موضوعات کے علاوہ چھوٹے موٹے جرائم اور معاشرتی سماجی مسائل اہم ہونے کے باوجود کسی دلچسپ قالب میں ڈھالنا بہت مشکل کام ہے۔ ان پر جاسوسی ,رومانوی یا سماج سدھار قسم کے ناول لکھنے والوں کی خدمت میں اکیس توپوں کی سلامی اور ساتھ ایک سنہری شام عالیہ اور عظمی کے ساتھ۔ بس اسی پر گزارا کریں۔
تخلیقی ناول وہ ہے جو اپنی طرف کھینچے جس میں کشش ہو جو روح کو متوجہ کرے۔ محض لفاظی اور زبان دانی سے یہ ممکن نہیں۔
میرے خیال سے سماجی رومانوی معاملات مرکزی خیال بنائے بغیر بھی ہلکے پھلکے انداز میں تذکرے میں آ جاتے ہیں جیسا کہ ابن صفی مرحوم نے یہی انداز اپنایا تھا۔
میں کچھ نیا لکھنا چاہتا تھا۔میں نے اپنی تحریروں کا جائزہ لیا اور خود سے سوال کیا۔ کون سی چیز میں ہمیشہ پڑھنا پسند کرتا رہا ہوں۔ جواب ملا۔ سائنس فکشن اور ورلڈ مسٹریز۔ یوں طے پا گیا کیا لکھنا ہے۔ دنیا کے سربستہ رازوں پر تھرلر ناول سیریز!
مشابہت ختم کرنے کے لیےمیں نے انسپکٹر,کرنل, کیپٹن,سارجنٹ, ایجنٹ وغیرہ جیسے کرداروں کو منتخب نہیں کیا۔بھئی اب ان عہدوں کا پیچھا چھوڑ دیں۔ وہ زمانہ اور تھا جب ان عہدوں اور وردی کی کچھ عزت تھی اب بھلا کون برداشت کرتا ہے ایسے نمونے۔
میرے کردار فلاسفر, سائنسدان, آرکیالوجسٹ ہیں یا پھر سرکس کے فنکار ہیں۔ یہ پس منظر لے کر لکھنا ایسا آسان نہیں کہ لکھ لکھ کر ڈھیر لگائے جا سکیں۔ ایک ناول تین چار مہینے میں مکمل ہو پاتا ہے۔ جان گسل کام ہے ۔مسلسل تحقیق اور محنت کے بغیر ممکن نہیں۔
محض تھرلر جاسوسی ناول اور اس میں تفریحی ,مزاحیہ واقعات پیش کرنے ہوں تو وہ میرےلیے بہت آسان ہے۔ اس پر تو مجھے اتنا وقت بھی نہیں لگے گا جتنا یہ مضمون تحریر کرتے ہوئے لگا۔ شاید ریلیکس ہونے کے لیے بیچ میں کبھی اس طرح کے ناول لکھوں جن کا مقصد محض تفریح ہو۔
لیکن نیا سوچیں نیا۔۔۔ میرے لیے تصوف ,روحانیت ,سائنس فکشن کو یکجا کرنا ایک نہایت دلچسپ اور بالکل نیا تجربہ ہے۔
لیکن یہ بات یاد رکھیں خواہ آپ کچھ بھی لکھنا چاہتے ہیں ابن صفی مرحوم کی کتابوں کا کورس لازم ہے۔ میرے بس میں ہوتا تو سکول کی ساتویں آٹھویں کلاس میں عمران سیریز اور جاسوسی دنیا کے پچاس پچاس ناولوں کو نصاب میں شامل کر دیتا۔
ابھی وہ اگرچہ نصاب کا حصہ نہیں ہیں لیکن ابن صفی اور اشتیاق احمد کو میں پھر بھی نصاب کا حصہ تصور کرتا ہوں۔ میرے بچے نہیں ہیں اگر ہوئے تو ان کی تعلیم کا یہ دو مصنفین لازمی حصہ ہوں گے۔
ناول نگاروں کے لیے بہترین استاد ابن صفی مرحوم ہیں اگرچہ سیکھتا تو انسان سبھی سے ہے لیکن میں نے جب پہلا ناول لکھا تو باوجود پوری کوشش کئی مقامات پر ابنِ صفیت واضح دکھائی دیتی ہے۔
ذرا توجہ سے اس بات کو پڑھیں میری پوری کوشش مختلف نظر آنے کی ہوتی ہے۔مشابہ نظر آنے کی نہیں ؎
میں تیرا تو میرا مگر اس کے باوصف
تشخص میں اپنا جدا چاہتا ہوں
(حضرت باغ حسین کمالؒ)
اپنے آپ کو سب سے الگ منفرد ثابت کریں۔ بہت سے مصنفین نئے کردار تخلیق تو کر رہے ہیں لیکن واضح طور پر وہ پہلے سے مشہور کرداروں کی کاپی دکھائی دیتے ہیں۔بلیک اینڈ وائٹ بے رنگ و روپ کاپی۔
فنا فی اللہ تصوف کا ایک اونچا مرتبہ ضرور ہے لیکن سنگِ میل ہے منزل نہیں۔ فنا فی اللہ کے بعد باقی بااللہ کا درجہ ہے۔ سادہ لفظوں میں اپنی خواہشات سے دستبردار ہو کر اللہ کی مرضی فنا فی اللہ ہے اور پھر واپس اپنی شخصیت کو نئے سرے سے یکجا کر کے ایک نئے انسان کی مانند اللہ کی مرضی کے ماتحت جینا اور اپنے نفس کی مداخلت سے محفوظ ہو جانا۔ باقی بااللہ ہے۔
لیکن فنا فی اللہ کا مطلب تباہی ہر گز نہیں ہے جیسا کہ ایک عوامی خیال پایا جاتا ہے جیسے یہ کوئی دھماکہ خیز وقوعہ ہے جس میں انسان کے پرزے اڑ جاتے ہیں۔
البتہ یہ بھی درست ہے کہ دنیاوی عشق ,چاہت ,محبت میں نتائج کچھ اس سے ملتے جلتے ہی نکلتے ہیں چناچہ فنا فی الاسرار ناروی اپنی شخصیت بھی کھو بیٹھے اور نئی شخصیت کی تعمیر بھی نہ کر پائے مرزا صادق شرر نے کہا تھا ؎
گئے دونوں جہان کے کام سے ہم،نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صَنم، نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
اپنے پسندیدہ ادیب کے بہترین نظریات کو ضرور اپنائیں زندگی کا حصہ بنا لیں لیکن ان جیسا بننے کا نہ سوچیں۔ اللہ تعالی نے ہر ایک کو اپنا نصیب دیا ہے اس پر قانع رہیں۔
جب لکھیں تو یوں لکھیں زندگی کی آخری کہانی لکھ رہے ہیں اسے پرفیکٹ بنائیں۔ لکھتے وقت اگر خود سسپنس دلچسپی اور ہیجانی کیفیت محسوس نہیں ہو رہی تو سمجھ لیں پھسپھسی کہانی ہے۔اگر خود کو بے اختیار ہنسی نہیں آئی تو کسی اور کو کیسے آئے گی؟
عالیہ اور عظمی دونوں کی کہانی اسی وجہ سے پھسپھسی ہے کیوں کہ ادیبِ اعلی الفاظ و بیاں کے کمالات دکھانے میں مصروف رہتا ہے اس کے پاس نئی بات کوئی نہیں ہوتی۔وہ گھسی پٹی باتیں گھماتا پھراتا رہتا ہے۔
ایسے کرتب باز قدیم زمانے سے پائے جاتے ہیں۔ ان کی تحریر سے لطف اندوز ہونے کے لیے قاری کو خواہ مخواہ پہلے خود کو باور کرانا پڑتا ہے کہ وہ ادبِ عالیہ پڑھ رہا ہے۔ جیسے ایک بہت بڑے مزاح نگار جن کے قارئین سمجھتے ہیں کہ انہی کا زمانہ چل رہا ہے درحقیقت ان کی تحریر پڑھ کر خود کو گدگدی الگ سے کرنی پڑتی ہے تاکہ ہنسی آئے۔
ابن صفی ایک پوری سچویشن بنا کر لاتے تھے جس کے بعد چھوٹی چھوٹی ایسی باتیں بھی ہنسا دیتی تھیں جو درحقیقت کوئی لطیفہ نہیں ہوتی تھیں۔لیکن یہ کرداروں اور ابن صفی مرحوم کی طبیعت کی تاثیر تھی جو سارے بدن میں مسکراہٹ بن کر گدگداتی چلی جاتی تھی۔ یہی میرے نزدیک حقیقی ادبِ عالیہ و عظمٰی ہے۔
جب آپ لکھیں تو کہانی اس قابل ہو دنیا کے سامنے فخریہ پیش کر سکیں۔ جسے بار بار پڑھا جا سکے۔ میرے صرف چار ناول ہیں لیکن مجھے ان کی ٹینشن کوئی نہیں۔ وہ کہیں سے مار کھا کر نہیں آنے والے۔۔۔۔الحمد للہ۔۔۔۔ جہاں لے جائیں جس ایڈونچر رائٹر سے چاہیں تقابل کر لیں۔ یہ میری خوش فہمی ہو سکتی ہے مگر ٹینشن پھر بھی نہیں۔ کیوں کہ ابھی تو ابتدا ہے۔۔۔ابتدا میں تو ویسے ہی کافی گنجائش ہوتی ہے۔
میرے ہاں پاکیشیا نام کا کوئی ملک نہیں ملے گا۔ اسی حقیقی دنیا کی حقیقی لوکیشن کے ساتھ حالاتِ حاضرہ کو ساتھ لے کر چلتی ہوئی کہانیاں ہیں۔ یہ عالیہ یا عظمٰی سے کوئی رشتہ جوڑ پاتی ہے یا نہیں لیکن سپنا سے ان کا تعلق بہت گہرا ہے۔ یہ تفریحی ادب کے ساتھ تحقیق اور علمی شعبہ جات سے جڑی ہیں اس لیے پڑھنے والے کا وقت ضائع نہیں ہوتا۔لیکن سُفنا(سپنا) میری بنیادی محبت ہے۔
پرائے کردار پر کبھی مت لکھیں۔ ناول شائد چل جائے لیکن آپ کا اپنا چلنا ہمیشہ کے لیے مشکوک ہو جائے گا۔
میں نے بچپن میں بچوں کے لیے ایک ناول ٹارزن پر لکھا تھا۔ اگر چھپوا دیتا تو ٹارزن پر لکھا گیا بہترین ناول ثابت ہوتا لیکن میں نے اسے آگ میں ڈال دیا۔ اس لیے کہ ٹارزن میرا کردار نہیں تھا۔ دوسروں کے کرداروں پر لکھا بالآخر راکھ کا ڈھیر ثابت ہوتا ہے۔
آنے والے وقت میں کوئی اسے سنجیدگی سے نہیں لے گا۔ ایک مصنف کا نقطہ کمال لکھ لکھ کر ردی کے ڈھیر لگانا نہیں بلکہ کچھ ایسا جو امر ہو جائے۔ جو ناقابلِ فراموش ہو۔ خواہ ایک ہی ناول ہو لیکن ایسا ہو کہ ہزاروں کی مت مار دے۔
ایک طویل عرصہ لکھ لکھ کر جلاتا رہا ہوں۔ بالآخر 52 سال کی عمر میں پہلا ناول ممنوعہ علاقہ لکھا جس پر دل کچھ مطمئن ہوا اور پبلشنگ کے لیے بھیج دیا۔
منیر نیازی مرحوم کے اشعار ہیں کہ ؎
کج شوق سی یار فقیری دا
کج عشق نے در در رول دِتا
کج شہر دے لوک وی ظالم سن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
اعلی کی تلاش گم کر دیتی ہے۔میں نے خود ہی ساری زندگی پرفیکشن کے چکر میں نگارشات اور وقت ضائع کر دیا اور لوگ تو ویسے ہی نہیں چاہتے کوئی آگے بڑھے۔لیکن ردی کا ڈھیر لگانے سے بہرحال یہ بہتر ہے۔ پنجابی میں کہتے ہیں کوجے رونا نالوں چُپ چنگی۔
یہاں بتانا ضروری ہے کہ جس عمر میں گمنام اسراراحمد نے پہلا ناول لکھا اسی عمر میں برصغیر کے سب سے نامور ادیب جناب ابن صفی اسراراحمد اڑھائی سو شاہکار ناول لکھ کر دنیا سے رخصت ہو گئے تھے ۔
ہمیشہ افسوس رہے گا ان کی اتنی جلد رخصتی کا ۔۔۔ آہ ۔۔۔
نیا لکھنا محنت طلب ہے لیکن کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ میرے ہاں طبع زاد نام کی کسی چیز کی بھی گنجائش نہیں۔ بالکل خالص نئی تخلیق۔۔۔
ایک آخری بات جاسوسی ناولوں کے حوالے سے دوبارہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ پہلے سے مشہور کرداروں پر کبھی مت لکھیں۔ محنت آپ کی اپنی ہو گی اور چربہ کسی اور کا کہلائیں گے۔ جو اس بات کو سمجھ لیں گے وہ کچھ نیا لکھ سکیں گے۔
اسراراحمدادراک
راولپنڈی ۔ یکم جولائی 2024