تحریر: اعظم خان
ایک ملاقات، حاصلِ حیات
۱ ۔ ناگہانی دریافت
وہ لاہور پاکستان میں ٨ جنوری ١٩٦٠ کی ایک حسین شام تھی۔ برٹش کاؤنسل کا صحن لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، جن میں سے اکثر کا تعلق مغربی ممالک سے تھا۔ سب ایک دوسرے کے ساتھ خوش فعلیوں میں مصروف نظر آرہے تھے۔ سیڑھیوں کے پاس، ایک کونے میں، جالی دار، گھنٹی نما آستینوں والے سیاہ لباس میں، ایک سنجیدہ صورت عورت کھڑی تھی۔ کالی ٹوپی کے نیچے، اس کے چھوٹے، سرخی مائل سنہرے بال، شام کی ٹھنڈی ہوا سے لہرا رہے تھے۔ اس کے بالوں کی سرخی مائل رنگت بتا رہی تھی کہ اسکے اجداد میں کہیں نہ کہیں کوئی آئرش ضرور رہا ہے۔ اس کی نظروں سے متانت اور ماحول سے کسی قدرغیر وابستگی کا اظہار ہوتا تھا۔ وہ بار بار بے چینی سے آہنی دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی، جیسے اپنی سواری کے آنے کی منتظر ہو۔ چند منٹ بعد ایک سیاہ مرسڈیز بینز، ماڈل ٣٠٠ ڈی، پھاٹک کے سامنے آ رکی۔ یہ بینز کا ١٩٦٠ کی فلیگ شپ کا بےحد شاندار ماڈل تھا۔ خاتون پر وقار انداز میں چلتی ہوئی گاڑی کی طرف بڑھیں۔ ڈرائیور نے دروازہ کھولا اور جب وہ مکمل اطمینان کے ساتھ بیٹھ چکیں تو آہستگی سے دروازہ بند کر دیا۔ گاڑی تیزی سے آگے پڑھی اور جلد ہی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
بابر معمول سے زیادہ تیزی سے چل رہا تھا۔ اس کے چہرے پہ جوش کے آثار تھے- وہ کیفے میں داخل ہوا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ اس نے جلد ہی اس شخص کو ڈھونڈ لیا جس کے لیے وہ یہاں آیا تھا۔ وہ تیز قدم بڑھاتا ہوا میز تک پہنچا اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ یہ مِرزا الطاف بیگ تھا جو ہفت روزہ میگزین ’’تجسّس‘‘ کا مدیر اعلیٰ تھا۔
"میں نے ابھی تصدیق کی ہے۔ وہ یہاں موجود ہیں. نوجوان صحافیوں میں سے ایک، کل برٹش کونسل میں ہی تھا- اور وہ انکے ساتھ ایک مختصر سی گفتگو کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔”
"اچھا! وہ کون؟” مرزا الطاف بیگ نے پوچھا۔
"ارے صاحب اسکو چھوڑیں۔ اہم بات یہ ہے کہ محترمہ نے ‘ہمارے مصنف’ کا ذکر خاصے اشتیاق سے کیا تھا۔”
"واقعی!” الطاف بیگ نے بےحد پرمسرت انداز میں کہا، "ذرا تصوّر کرو کہ اگر یہ دونوں شخصیات تھوڑی دیر کے لئے ہی ملاقات کر پائیں تو ہم جیسوں کو سرّی ادب سے متعلق کیسے کیسے نایاب جواہر نصیب ہو سکتے ہیں۔”
"اچھا تو پھر آپ میری اگلی خبر سُن کے یقیناً اچھل پڑیں گے۔” بابر شرارتی انداز میں مسکرایا اور مزید کچھ کہے بغیرخاموش ہو گیا۔ الطاف اچھی طرح جانتا تھا کہ بابر اس کے جذبات سے کھیل رہا ہے۔ وہ خاموشی سے بابر کے چہرے پہ نظریں جمائے اسے دیکھتا رہا۔
"تو جناب،” بابر نے ایک مختصر خاموشی کے بعد کہنا شروع کیا "محترمہ نے اپنی واپسی کے پلان میں تبدیلی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وہ ہمارے ‘مصنف صاحب’ سے ملاقات کے لئےان کی کراچی کی رہائش گاہ پر تشریف لے جا رہی ہیں۔”
"دل خوش کر دِتّا باشاؤ!” الطاف خوشی سے تقریباً چیختا ہوا بولا، اور اپنے جوش پہ قابو نہ پاتے ہوئے یکلخت کھڑا ہو گیا۔ بابر منہ دبا کے ہنسنے لگا اور الطاف کھسیاتا ہوا دوبارہ بیٹھ گیا۔
وہ دونوں تقریباً ایک گھنٹے تک بات چیت کرتے رہے اور پھر اپنی اپنی راہ ہو لئیے۔
۲ ۔ یادگار ملاقات
ناظم آباد نمبر٢ کے علاقے میں، ١٠ جنوری ١٩٦٠ کو، اتوار کی صبح ایک غیر معمولی ہلچل دیکھنے کو ملی۔ بلاک جی کی ایک رہائش گاہ کے سامنے درجنوں کاریں کھڑی تھیں۔ کئی لوگ گھر کے باہر گویا کسی خاص ہستی کی آمد کے منتظر تھے۔ پندرہ منٹ بعد، وہی کالی مرسڈیز دکھائی دی۔ دو حضرات گاڑی کے ڈرائیور کو پارکنگ میں مدد دینے کے لئے آگے بڑھے۔ سرخی مائل سنہرے بالوں والی خاتون باہر نکلیں تو تھری پیس سوٹ میں ملبوس ایک آدمی ان کا استقبال کرنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھا۔ اس نے خاتون کے کان میں سرگوشی کی، اور وہ تیزی سے اس کے پیچھے گھر میں داخل ہوگئیں۔
"خوش آمدید! مزاج بخیر؟” ایک پر واقار مردانہ آواز سنائی دی ۔
"بہت شکریہ! میں بالکل خیریت سے ہوں۔” ایک قدرے سَن رسیدہ زنانہ آواز جواباً سنائی دی۔
"میں بے حد مشکور ہوں کہ آپ نے مجھ سے میری رہائش پہ ملنا منظور کیا۔ کچھ عرصے سے طبیعت ناساز سی ہے۔"
"کوئی بات نہیں۔ میں اس ملاقات پہ بے حد خوش ہوں۔"
"یہ تو بتائیے کہ کیا آپ کا کراچی میں کچھ عرصہ رکنے کا ارادہ ہے؟"
"بالکل نہیں۔ در حقیقت، میں تو دو دن پہلے مصر جانے والی تھی۔ لیکن برٹش کونسل پہ ایک صاحب سے آپ کے تذکرے کے بعد میں نے یہاں سے جلد واپس جانے کا ارادہ بدل دیا۔"
"بہت ممنون و مشکور ہوں۔ سچ پوچھیں تو اب تک بےیقینی کی کیفیت سے گزر رہا ہوں۔"
"مجھےبھی اس بات کی بےحد مسرّت ہے۔"
"کیا آجکل آپ کسی نئی کتاب پہ کام کر رہی ہیں؟"
"بالکل۔ میں اپنی آنے والی کتاب پہ ایک نیا تجربہ کرنے جا رہی ہوں۔ آپ کو اس سلسلے میں جلد ہی پتہ چل جائے گا۔ لیکن ۔ ۔ ۔ میں یہاں اپنے بارے میں بات کرنے تو نہیں آئی! میں تو یہاں آپکے بارے میں جاننے آئی ہوں۔"
"اب شائد میری دنگ رہ جانے کی باری ہے۔ آپ مہمان ہیں جیسی آپکی خوشی۔"
"اچھا تو سب سے پہلے یہ بتائیے کہ آپ اتنی تیزی سے کیسے لکھ لیتے ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ ہر مہینے آپکا ایک نیا ناول شائع ہوتا ہے؟"
"کیا کہہ سکتا ہوں اس بارے میں۔ میرے مالک کا کرم ہے مجھ پہ۔ اور پھر لکھنے کی دھن تو بچپن ہی سے سوار رہی۔ پہلی کہانی شائد ساتویں جماعت میں لکھ ڈالی تھی۔ آٹھویں جماعت میں پہلی نظم لکھی۔ بس اس دن سے آج تک لکھ ہی رہا ہوں۔"
"آپ کی لکھنے کی صلاحیت بہت متاثرکن ہے۔ میں اٹھارہ سال کی تھی جب میں نے اپنی پہلی تحریر قلم بند کی۔ آپ نے پہلا مضمون کب لکھا اور پھر جاسوسی کتابیں لکھنے کا خیال کیسے آیا؟"
"پہلی کہانی چودہ سال کی عمر میں لکھی۔ البتہ جاسوسی کہانیاں تئیس سال کی عمر میں ایک چیلنج کے طور پہ لکھنی شروع کیں۔ دراصل اسوقت بازار میں گھٹیا درجے کی کتابوں کی بھرمار تھی۔ میری کوشش تھی کہ ان کتابوں کے متبادل ایسا ادب لاؤں جو تمام عمر کے لوگوں کے لئے دلچسپی کی باعث ہو۔”
"میں آپ کی بلند خیالی کی تعریف کروں گی۔"
"زرّہ نوازی کا شکریہ! میرے پہلے ناول کو عوام نے اتنا سراہا کہ پھر کبھی پیچھے مڑ کے دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔"
"بے شک! اچھا یہ بتائیے کہ جاسوسی کتابیں لکھنے کی طرف کیسے مائل ہوئے؟"
"آپ تو میری یادداشت کو جھنجھوڑے دے رہی ہیں۔ میں کوشش کروں گا کہ میرا جواب مختصر ہو اور اس کی طوالت آپکے لیے بوریت یا تضیع اوقات کا باعث نہ ہو۔"
"میں مشکور ہوں گی!"
"اچھا تو سنئیے! طلسمِ ہوشربا نے بچپن ہی سے میرے تخیّل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس کتاب کا ترجمہ سنہ ١٨٨١ اور ١٩٠٥ء کے بیچ شائع ہوا۔ پہلی طباعت چار ہزار صفحات پر مشتمل تھی۔ لیکن جو کتاب میرے ہاتھ لگی اس کی سات جلدیں تھیں۔ سات سال کی عمر تک میں اسکو کئی مرتبہ پڑھ چکا تھا۔ یہ کتاب فارسی زبان میں لکھی گئی داستانِ امیرحمزہ کا اردو ترجمہ تھیاور سنہؑ ١٠٠٠ء میں شائع ہوئی۔"
"حمزہ کی کہانیوں کے بارے میں سن چکی ہوں۔ یہ محمّدﷺ کے چچا تھے ناں؟"
” نہیں۔ یہ ایک عام مغالطہ ہے۔ میں کچھ دیر میں اس موضوع پہ دوبارہ آتا ہوں۔
فی الحال تو میں یہ بتانا چاہوں گا کہ میں جاسوسی کہانیوں کی طرف کیسے آیا۔ عمر کے ساتھ ساتھ میرا ادب کی نئی جہتوں کو تلاش کرنے کا جنون بھی بڑھتا گیا۔ میں نے بہت سے سنجیدہ موضوعات کو پڑھ ڈالا۔ ان لکھنے والوں میں شبلی نعمانی، سلیمان ندوی، میر امن دہلوی، سید احمد خان، نذیر احمد دہلوی، اور محمد حسین آزاد شامل ہیں۔ شعراء میں غالب، اقبال، جگر، اور میراجی میرے پسندیدہ ہیں۔"
"بےحد دلچسپ! مجھے یقین ہے کہ اس وقت اردو کلاسکس کا ذکر ہو رہا ہے، لیکن میں نے سنا ہے آپکی کہانیاں بالکل نئے دور کی ہیں۔"
"قطعی درست سنا آپ نے۔ اردو ادب کو کھنگالنے کے بعد میں نے مغربی ادب کے میدان میں قدم رکھا۔ جاسوسی کہانیاں مجھے شروع سے ہی پسند تھیں۔ شاید ‘طلسمِ ہوشربا’ کے جادو نے مجھے ہمیشہ مسحور رکھا۔ اس درجہ کہ میں ایسے ادب کو تلاش کرتا رہا جس میں تحیّر اور اسرار کے عناصر نمایاں پہلو رکھتے ہوں۔ جاسوسی ناول ان عناصر کی کثیر مقدار فراہم کرتے ہیں۔ ‘مرڈر آن دی اورئنٹ ایکسپریس’ ایسے ہی ناولوں میں سے ایک ہے۔ اور میں واقعی خوش ہوں کہ مجھے اس کتاب کی مصنفہ، جو کہ میرے پسندیدہ مصنفین میں سے ہیں، سے ملنے کا موقع مل رہا ہے۔"
"آپ کی ستائش کا بہت شکریہ!"
"میں جاسوس جوڑیوں کی کہانیوں سے بہت متاثر تھا۔ ان میں ایڈگر ایلن پو کا ڈوپِن اور اسکا بے نام ساتھی، آرتھر کونن ڈوئل کا ہومز اور واٹسن، اور اسٹینلی گارڈنر کا میسن اور ڈریک شامل ہیں۔ انہی کرداروں میں آپ کے کردار بھی شامل ہیں جنہوں نے مجھ پہ گہرا اثر ڈالا۔ دیگر مغربی مصنفین، جنکو میں نے ذوق و شوق سے پڑھا، میں ہیرالڈ رابنز، ایلسٹر مکلین، اور لوئس لَمور شامل ہیں۔"
" سر آرتھر کونن ڈوئل نے مجھے بھی جنون کی حد تک متاثر کیا۔ میرے ابتدائی ایام میں مجھے انکے انداز سے ہٹ کر لکھنے کے لئے بےحد جدوجہد کرنی پڑی۔"
"میں تصوّر کر سکتا ہوں۔ میرے شروع کے چند ناولوں میں میرے جاسوسوں کی جوڑی بھی کسی حد تک ہومز اور واٹسن سے متاثر تھی۔ البتہ میری شروع سے ہی یہ کوشش رہی کہ میرے جاسوسوں کا انداز بالکل جداگانہ رہے۔ اور یہ ناگزیر بھی تھا کیونکہ میرے کردار مشرقی تہذیب کے کردار ہیں۔ لہٰذا انکی سوچ، رہن سہن، اور معاشرتی اقداراسی تہذیب کی عکاس ہیں۔
میری اس کوشش کے باوجود شائد کچھ لوگوں کو آرتھر کونن ڈوئل اور میرے ابتدائی کرداروں میں مماثلت نظر آئے۔ مثلاً دونوں کے کردار تلواربازی کے فن سے واقف ہیں، ماہر کیمیادان ہیں، دونوں کے پاس جرم اور جرائم سے متعلق کتابوں کے ذخائر ہیں، اور دونوں ہی ایسی جسمانی قوتوں کے مالک ہیں جو کہ ظاہر تو نہیں ہوتیں لیکن اپنے حریفوں کو متحیر کر دیتی ہیں۔"
"بےحد دلچسپ!"
"جی ہاں۔ لیکن بس یہ مماثلت یہاں ختم ہو جاتی ہے۔ درحقیقت، دونوں کرداروں کی شخصیات اور افکار بہت مختلف ہیں۔"
"ایک اصل فنکار کی نشانی یہی ہے۔ دوسروں سے لئے گئے قوی اثرات کے باوجود ایک سچا فنکار اپنی جداگانہ راہیں خود ہی نکالتا ہے۔ اپنے دوسرے جاسوسی سلسلے کے بارے میں کچھ بتائیں۔ میں نے سنا ہے کہ اسکا ہیرو دنیا بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتا؟"
"میری کوشش تو یہی رہی۔ اور یقین بھی ہے کہ ایسا کردار شائد ابھی تک معرض وجود میں نہیں آیا ہے۔ بےحد یکتا اور پیچیدہ کردار ہے۔ اس کی شخصیت متضاد پہلوؤں کا ایک مجموعہ ہے۔ بہادر ہے لیکن خود کو ڈرپوک دکھا کر کام نکالتا ہے، بےحد ذہین ہے لیکن دوسروں کو احمق بنا کر چل بنتا ہے، بےحد چالاک بھی ہے اور حد سے زیادہ معصوم بھی، وطن کی محبت میں جان دینے کو تیار لیکن وطن دشمنوں کے سامنے خود کو مجرم بنا کر پیش کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔ اس قدر صلاحیتوں کا حامل لیکن لوگ اسے سنجیدگی سے لینے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔"
"واقعی بےحد پیچیدہ کردار معلوم ہوتا ہے۔ اسکو لکھنا بھی یقیناً آسان نہ ہوگا۔"
"مزے کی بات تو یہی ہے کہ اس کردار کی متضاد صلاحیتوں ہی کی طرح، اس کردار کو نبانا آسان بھی ہے اور کبھی کبھی دشوار بھی۔ بہرحال، اس کردار میں اتنی لچک تو ہے کہ مجھے زیادہ دقّت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ میرے پہلے جاسوسی سلسلے کے ہیرو کی بات البتہ دوسری ہے۔ اس پہ لکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔"
"ارے مگر ایسا کیوں ہے؟"
"میرے اس کردار کا معیار ایک ایسے درجے پہ پہنچ چکا ہے جہاں مییرے اپنے لئیے اس کو نبھانا ایک چیلنج ہے۔ اس کردار کی فراست اور عظمت کے ساتھ انصاف کرنے کے لئے مجھے خاصی جدوجہد کرنی پڑ جاتی ہے۔ یہ کردار ایک اکلوتا نواب ابنِ نواب ہے۔ حبّ الوطنی، ایمانداری، ہمدردی، ذہانت، دلیری، اور مردانہ وجاہت کا ایک سرچشمہ ہے۔ مثبت اور درخشاں صلاحیتوں کا ایک بہترین امتزاج۔"
"لاجواب کردار ہے۔"
"نوازش! میرے خیال میں اب ایک مختصر وقفہ موزوں رہے گا۔ چائے تو یقیناً پسند ہوگی آپکو؟"
"پسند نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آخر میرا تعلق برطانیہ سے ہے۔”
"آپ مجھے امیر حمزہ کے بارے کچھ بتانا چاہ رہے تھے۔"
"ضرور! ایک عام اور قدرے سہل، عقیدہ یہ ہے کہ امیر حمزہ سے مراد ہمارے پیارے نبیﷺ کے چچا ہیں۔ وہ ایک بہادر آدمی، ماہر تلوار باز، اور گُھڑ سوار تھے۔ تاہم ‘داستانِ امیر حمزہ’ کے حمزہ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک ایرانی باغی حمزہ بن عبدُاللہ ہے۔ اسکی زندگی کا تعلق نویں صدی کے اوائل سے تھا۔ اس کی شاندار مُہِم جوئی نے کئی کہانیوں کو جنم دیا۔ اس کے معرکوں اور کارناموں کا احوال ‘مغازئِ امیر حمزہ’ میں پایا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ‘داستان امیر حمزہ’ میں تبدیل ہو گئی۔"
"بےحد پُر لُطف داستان ہے! دیکھئے وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا اور واپسی کا وقت ہو چلا۔"
"آپکا آنا ہی کسی اعزاز سے کم نہیں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ آپ مجھے اپنی تازہ ترین کتاب کے بارے میں تجسُّس میں ہی چھوڑ جائیں گی۔"
"بھئی میں بھی آخر ایک جاسوسی افسانہ نگار ہوں۔ لوگوں کو تجسُّس میں رکھنا ہی روزگار ٹہرا۔ بس اتنا ہی کہوں گی کہ جو تجربہ میں اب کرنے جا رہی ہوں، وہ آپ دو سال پہلے کر چکے ہیں۔"
"اوہ!"
"مجھے لگتا ہے کہ آپ سمجھ گئے۔ اسکو فی الحال راز ہی رکھئے۔ میری کتاب جلد منظر عام پر آ جائے گی۔"
۳ . اِک حسین خواب
بابر نے کھڑے ہو کر میز پہ رکھا چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈر بند کر دیا۔ مردانہ اور زنانہ آوازیں اسی میں سے آرہی تھیں۔ وہ کسی نہ کسی طرح پوری گفتگو رکارڈ کرنے میں کامیاب ہو ہی گیا تھا۔ وہ اور الطاف چند لمحوں پہلے وہی گفتگو سُن رہے تھے۔
انہیں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہے ہوں۔ وہ جانتے تھے کہ انہوں نے ابھی ابھی ایک ایسی گفتگو سنی ہے جو برِّصغیر میں سرِّی ادب کی تاریخ کو متاثر کر سکتی ہے۔ دونوں کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں۔
پس نوشت
ایک ملاقات، حاصلِ حیات ایک مختصر، فرضی کہانی ہے جو ابن صفی کو ان کی ٤٣ ویں برسی (٢٦ جولائی ٢٠٢٣) پر بطور خراج تحسین لکھی گئی۔
‘ابن صفی ایک عہدساز شخصیت’ گروپ کے لئے کچھ منفرد لکھنے کی خواہش ہوئی تو ذہن میں آیا کہ کہیں پڑھا تھا کہ اگاتھا کرسٹی نے اپنے دورہٴ پاکستان کے دوران ابن صفی کا ذکر کیا تھا۔ ایک سوال جو فوری ذہن مں آیا وہ یہ کہ اگر انکی ملاقات ابنِصفی سے ہوتی تو کیا ہوتا۔ اپنی اپنی سلطنت کے یہ دو شہشنشاہ کیا گفتگو کرتے؟ یہ ملاقات کیسی رہتی؟
میں نے انٹرنیٹ پہ دیکھنا شروع کیا اورجلد وہ آرٹکل پا لیا جسے میں ڈھونڈھ رہا تھا۔ یہ ریڈِف پہ راشد اشرف کی کتاب، ‘ابن صفی – کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا’ سے لیا گیا ایک اسکرین شاٹ تھا۔ سب سے پہلی بات جس کی تصدیق ہوئی وہ یہ تھی کہ ابن صفی سے متعلق اگاتھا کرسٹی سے جو بات عموماً منسوب کی جاتی ہے وہ غلط ہے۔ دریں اثناٴ، محترمہ کرسٹی کے دورہٴ پاکستان سے متعلق صحیح وقت اور جگہ کے بارے میں بھی غلط فہمی دور ہو گئی۔
مجھے جس مسئلے کا سامنا سب سے پہلے کرنا پڑا وہ یہ تھا کہ محترمہ کرسٹی نے 1960 میں پاکستان کا دورہ کیا۔ یہ وہی سال تھا جب ہمارے محبوب مصنف شدید علالت کا شکار ہوئے اور تین سال تک مزید نہ لکھ سکے۔ لہذا، میں نے اس میٹنگ کا احوال سال کی شروعات، بلکہ جنوری کی شروعات کا دکھایا ہے۔
ایک اور اہم وضاحت جو میں کرنا چاہتا تھا، جس کے بارے میں میں نے چند دوسرے شائقین کے ساتھ بحث بھی کی تھی، وہ یہ تھی کہ ابن صفی کی تحریر واضح طور پر مغرب اور اس کے مصنفین سے متاثر تھی۔ نہ کہ طلسمِ ہوشربا سے۔ یہ بات کم از کم میرے لیے ہمیشہ سے روزِ روشن کی طرح عیاں رہی۔ اس کہانی کی تحقیق کے دوران مجھے ‘ٹائمز آف انڈیا’ کا ایک آن لائن مضمون ملا جس میں واضح طور پر لکھا تھا کہ ابن صفی مغربی مصنفین کی ایک لمبی فہرست سے نہ صرف روشناس تھے بلکہ ان مصنفین کو باقاعدگی سے پڑھا کرتے تھے۔
میں نے اس بات کا بھی خاص خیال رکھا ہے کہ ان دونوں عظیم جاسوسی ناول نگاروں کے حفظِ مراتب کا خاص خیال رکھا جائے۔ ١٩٦٠ میں اگاتھا کرسٹی کی عمر ٧٠ سال تھی، جب کہ ابن صفی کی عمر ٣٢ سال تھی۔ اس لیے ابن صفی کی طرف سے عزت و احترام کے جذبات، اور محترمہ کرسٹی کی طرف سے ستائش کے جذبات کی عکاسی کی گئی ہے۔
مکالمے ایک ریکارڈنگ کے طور پر پیش کیے گئے ہیں۔ اسی لئے گفتگو کے دوران تاثرات یا دیگر واقعات کی تفصیلات بیان نہیں کی گئیں۔ جس کی وجہ سے گفتگو قدرے خشک سنائی دیتی ہے۔ میں نے دانستہ طور پہ مکالموں کو حقیقی بات چیت کا رنگ دینے سے گریز کیا ہے۔ اسکی ایک وجہ ابنِ صفی کی ذاتی زندگی کا احترام ہے۔
مکالموں کو رنگدار کرنے کی وجہ آوازوں کے فرق کو واضح کرنا ہے تاکہ گفتگو کے بہاؤ کو برقرار رکھا جا سکے اور قارئین کے لئے کسی قسم کی الجھن پیدا نہ ہو۔
آخری چند مکالمے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ١٩٦٠ میں اگاتھا کرسٹی "دی ایڈونچر آف دی کرسمس پڈنگ” پر کام کر رہی تھیں جس میں وہ اپنے دو مرکزی کرداروں، ہرکیول پائرِٹ اور مِس مارپل کو پہلی بار ساتھ لائی تھیں۔ ظاہر ہے کہ ابن صفی یہ کام ١٩٥٨ میں "زمین کے بدل” میں کر چکے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ یہ مختصر کہانی ابن صفی کے ان تمام مداحوں کے معیار پر پورا اترے گی جونئےپن کی تلاش میں رہتے ہیں۔ براہ کرم اپنے تاثرات، تعریف کے ساتھ ساتھ تنقید بھی، بلا جھجھک فراہم کریں۔ گو کہ تعریف سے انسان وقتی طور پہ اچھا محسوس کرتا ہے لیکن درحقیقت یہ تنقید ہی ہے جو کسی کام کو بہتر بنانے میں اور کسی بھی فنکار کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
کچھ مصنّف کے بارے میں . . .
اعظم خان پیشے کے لحاظ سے سافٹ ویئر انجینئرنگ مینیجر ہیں۔ انہوں نے آٹوموٹِو، ائرواِسپیس، اور سیمی کنڈکٹر انڈسٹری میں ٢٥ سال سے زیادہ عرصے کام کیا ہے۔ فرصت میں وہ اردو کتابیں پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے پسندیدہ ادیبوں میں مشتاق احمد یوسفی، ابن انشاء، مَنٹو، کرشن چندر، ٹیگور اور ابن صفی شامل ہیں۔ وہ محمد رفیع کے بہت بڑے مداح ہیں اور قریبی دوستوں کی محفلوں میں گیت گانا پسند کرتے ہیں۔ وہ اِسمیُول پر باقاعدگی سے گانے گا کر اپلوڈ کرتے رہتے ہیں۔
حوالہ جات
- Kehti hai tujh ko Khalq-e-Khuda ghaibana kya – Rashid Ashraf – Second Edition
- http://www.compast.com/ibnesafi/biography.htm