ابنِ صفی ۔ خراجِ تحسین

تحریر: آمنہ قمیش


ابن
صفی: اردو جاسوسی ادب کے بے تاج بادشاہ


ابن
صفی، جن کا اصل نام اسرار احمد تھا، اردو ادب میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کی پیدائش 26 جولائی 1928ء کو ہندوستان کے شہر الٰہ آباد میں ہوئی۔ ابن صفی کو اردو کے معروف جاسوسی  ناول نگار کے طور پر جانا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے لاکھوں قارئین کے دل جیتے اور اردو ادب کو ایک نئی جہت دی۔

ابن صفی نے ابتدائی تعلیم الٰہ آباد میں حاصل کی۔ ان کی تعلیم میں سائنس، فلسفہ اور ادب شامل تھے۔ ابتدا سے ہی ان کا رجحان ادبی سرگرمیوں کی طرف تھا اور انہوں نے نوجوانی میں ہی لکھنا شروع کر دیا تھا۔ ان کی پہلی کہانی "نیلی روشنیایک ڈائجسٹ میں شائع ہوئی، جو بعد میں ان کے ادبی سفر کی بنیاد بنی۔

ابن صفی نے 1952ء میں اپنے ادبی کیریئر کا آغاز کیا جب انہوں نے اپنا پہلا جاسوسی ناول "دلیر مجرملکھا۔ ان کے ناولوں کی اشاعت نے اردو ادب میں ایک نیا رحجان متعارف کرایا۔ ان کی تحریروں کی خاص بات یہ تھی کہ وہ محض جاسوسی کہانیاں نہیں تھیں بلکہ ان میں معاشرتی مسائل، انسانی نفسیات اور مزاحیہ انداز بھی شامل تھا۔

جاسوسی دنیا ابن صفی کی پہلی اور بے حد مقبول سیریز ہے۔ اس سیریز کے مرکزی کردار انسپکٹر فریدی اور سارجنٹ حمید ہیں۔ انسپکٹر فریدی ایک تجربہ کار پولیس افسر ہے جو مختلف جرائم کی تحقیقات کرتا ہے، جبکہ حمید کا کردار  مزاحیہ اور قدرے ہلکا پھلکا ہے۔ اس سیریز کی کہانیاں بے حد سنسنی خیز اور دلچسپ ہوتی ہیں، جو قارئین کو آخر تک باندھے رکھتی ہیں۔

ابن صفی کی دوسری مشہور سیریز "عمران سیریزہے۔ جس نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔  اس سیریز کا مرکزی کردار علی عمران ہے، جو بظاہر ایک معمولی شخص نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں وہ ایک ذہین اور چالاک جاسوس ہے۔ علی عمران کی شخصیت میں مزاح اور سنجیدگی کا حسین امتزاج ہے، جو قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ عمران سیریز کی کہانیاں مختلف جرائم اور سازشوں کے گرد گھومتی ہیں، جنہیں علی عمران اپنی ذہانت اور جرات سے حل کرتا ہے۔

ابن صفی کی تحریروں کا انداز منفرد اور دلچسپ تھا۔ ان کے ناولوں میں پلاٹ کی پیچیدگی، کرداروں کی گہرائی اور ماحول کی جاندار عکاسی پائی جاتی ہے۔ ان کی زبان سادہ اور رواں ہوتی تھی، جو قارئین کو بآسانی سمجھ میں آتی تھی۔ ان کی تحریروں میں مزاح اور سنسنی کا بہترین امتزاج ہوتا تھا، جو قارئین کو کہانی کے ساتھ جوڑے رکھتا تھا۔

ابن صفی کے ناولوں کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی کتابیں آج بھی پڑھی جاتی ہیں اور نئی نسل بھی ان کی کہانیوں سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ ان کی تحریروں نے نہ صرف اردو ادب میں ایک نئی روح پھونکی بلکہ دیگر زبانوں کے ادب پر بھی گہرا اثر ڈالا۔ ان کے ناولوں کا ترجمہ مختلف زبانوں میں کیا گیا اور ان کی کہانیاں ڈراموں اور فلموں کی صورت میں بھی پیش کی گئیں۔

ابن صفی کی تحریریں اور ان کا ادبی مقام نہ صرف قارئین بلکہ ناقدین کی نظر میں بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ان کی تحریروں کے بارے میں مختلف ادیبوں، ناقدین اور قارئین نے اپنی آراء پیش کی ہیں، جن میں ان کی ادبی خدمات کی تعریف اور ان کے منفرد اندازِ تحریر کی تحسین شامل ہے۔

ڈاکٹر خورشید انور
ڈاکٹر خورشید انور، جو اردو ادب کے ممتاز ناقد ہیں، ابن صفی کی تحریروں کے بارے میں لکھتے ہیں:

"ابن صفی نے اردو جاسوسی ادب کو ایک نئی پہچان دی۔ ان کی کہانیاں نہ صرف سنسنی خیز ہوتی ہیں بلکہ ان میں انسانی نفسیات اور معاشرتی مسائل کی عکاسی بھی کی جاتی ہے۔ ان کا اندازِ تحریر سادہ مگر دلکش ہوتا ہے جو قارئین کو آخر تک باندھے رکھتا ہے” ۔

ممتاز مفتی
ممتاز مفتی، جو اردو کے معروف افسانہ نگار ہیں، نے ابن صفی کی تحریروں کے بارے میں کہا:

"ابن صفی کی کہانیاں محض جاسوسی ناول نہیں بلکہ وہ ایک مکمل ادبی تجربہ ہیں۔ ان کی کہانیوں میں پلاٹ کی پیچیدگی، کرداروں کی گہرائی اور ماحول کی جاندار عکاسی پائی جاتی ہے۔ ان کے ناولوں میں سنسنی اور مزاح کا بہترین امتزاج ہے” ۔

ناصر ادیب
ناصر ادیب، جو فلمی دنیا میں مشہور مصنف ہیں، نے کہا:

"ابن صفی نے جو کام کیا، وہ صرف اردو ادب کے لئے نہیں بلکہ عالمی ادب کے لئے بھی ایک مثال ہے۔ ان کے کردار زندہ جاوید ہیں اور ان کی کہانیوں میں آج بھی وہی تازگی اور دلکشی ہے جو پہلے دن تھی۔ انہوں نے اپنے ناولوں کے ذریعے ایک پوری نسل کو پڑھنے کا شوق دلایا” ۔

ابن صفی کے قارئین نے بھی ان کی تحریروں کی بہت تعریف کی ہے۔ ایک قاری، محمد علی، نے اپنی رائے میں لکھا

"ابن صفی کے ناول میری زندگی کا حصہ ہیں۔ ان کی کہانیاں پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں خود ان کے کرداروں کے ساتھ ہوں۔ ان کے ناولوں میں موجود سنسنی، مزاح اور تجسس نے مجھے ہمیشہ متوجہ رکھا” ۔

ابن صفی کی تحریروں کو بین الاقوامی سطح پر بھی پذیرائی ملی ہے۔ ایک بین الاقوامی نقادجیمز پیٹرک نے کہا

"ابن صفی کی تحریریں کسی بھی بین الاقوامی جاسوسی ادب سے کم نہیں۔ ان کی کہانیوں میں موجود پیچیدگی اور کرداروں کی تفصیل انہیں عالمی معیار کا بناتی ہے۔ ان کی تحریریں نہ صرف اردو زبان میں بلکہ دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ ہو کر مقبول ہوئیں” ۔

ابن صفی کا انتقال 26 جولائی 1980ء کو کراچی میں ہوا۔ ان کی وفات کے بعد بھی ان کی تحریریں زندہ ہیں اور ان کے قارئین کے دلوں میں ان کی یاد تازہ رکھتی ہیں۔ ان کی تحریروں میں موجود معاشرتی مسائل، انسانی نفسیات اور مزاحیہ انداز آج بھی لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔

ابن صفی کا ادبی ورثہ اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ان کی تحریروں نے نہ صرف جاسوسی ادب کو فروغ دیا بلکہ معاشرتی مسائل اور انسانی نفسیات پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ابن صفی کی تحریریں نہ صرف ان کے قارئین بلکہ ناقدین اور ادیبوں کے لئے بھی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کی کہانیوں میں موجود سنسنی، مزاح اور معاشرتی مسائل کی عکاسی نے انہیں اردو ادب میں ایک منفرد مقام عطا کیا۔ ان کی تحریروں کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے اور نئی نسل بھی ان کی کہانیوں سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ ابن صفی کا نام ہمیشہ اردو جاسوسی ادب میں ایک نمایاں مقام پر رہے گا۔



نوٹ:
ابنِ صفی صاحب کے بارے میں مزید جاننے اور انکے سینکڑوں مدّاحوں سے گفتگو کرنے کے لئے فیس بک گروپ https://www.facebook.com/groups/thetimelessibnesafi ضرور جوائن کیجئے۔



حوالہ جات

  1. ابن صفی – شخصیت اور فن
  2. ابن صفی کا ادبی نصب العین
  3. ابن صفی مشن اور ادبی کارنامہ
Scroll to Top