تحریر: آمنہ قُمیش
مظہر کلیم ایک معروف پاکستانی ناول نگار اور مصنف تھے۔ تین دہائیوں پر محیط کیریئر کے ساتھ ، کلیم نے سینکڑوں کتابیں لکھیں۔ ان کہانیوں میں بچوں کے لئے لکھی گئی چلوسک ملوسک سیریز، آنگلو بانگلو سیریز، فیصل شہزاد سیریز اور چھن چھنگلو سیریز نے اپنے زمانے میں خاصی شہرت پائی۔ کلیم اپنی جاسوسی تھرلر اور ایکشن سے بھرپور ناولوں کے لیے بھی مشہور تھے۔ کلیم نے اپنے منفرد تحریری انداز اور دلکش کہانیوں سے قارئین کو مسحور کیا۔ ان کا کام پاکستان میں بہت مقبول ہوا۔ انہوں نے اپنے جاسوسی ناولوں، خاص طور پر عمران سیریز کی وجہ سے کافی شہرت پائی۔
ابتدائی زندگی اور کیریئر:
22 جولائی 1942ء کو ملتان ، پاکستان میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ملتان میں ہی حاصل کی اور پھر ملتان کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ وکالت کے پیشے کے ساتھ ساتھ، وہ لکھنے کا شوق بھی رکھتے تھے۔ جلد ہی ادبی میدان میں اپنی پہچان بنانے لگے۔ مظہر کلیم نے اپنے تحریری کیریئر کا آغاز 1970ء کی دہائی میں کیا۔ ابتدا میں انہوں نے مقامی اخبارات اور رسالوں کے لیے مختصر کہانیاں اور مضامین لکھے۔ ان کا ابتدائی کام 1970ء اور 1980ء کی دہائی کے دوران پاکستان کے سیاسی اور سماجی ماحول سے بہت زیادہ متاثر تھا۔ کلیم کے تحریری انداز کو جاسوسی اور بین الاقوامی سازش کی دنیا سے ان کی دلچسپی نے شکل دی ۔
شہرت میں اضافہ:
کلیم کی پیش رفت 1980ء میں ان کے پہلے جاسوسی ناول "عمران سیریز” کی اشاعت کے ساتھ ہوئی۔ یہ سیریز ایک پاکستانی انٹیلیجنس ایجنٹ علی عمران کی مہم جوئی بیان کرتی ہے۔ جب وہ بین الاقوامی آفتوں کے خلاف لڑتا ہے اور دنیا کو تباہی سے بچاتا ہے۔ ان کے ناولوں میں جرم، معمہ، اور مہم جوئی کی شاندار کہانیاں شامل ہوتی تھیں۔ یہ سیری ہٹ ہو گئی اور کلیم کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ۔ انہوں نے عمران سیریز میں 600 سے زیادہ ناول لکھے جس سے جاسوسی تھرلر کی صنف کے ماہر کے طور پر ان کی پوزیشن مستحکم ہوئی ۔
اسلوبِ بیاں:
کلیم کے تحریری انداز کی خصوصیت موڑ در موڑ پلاٹ تیار کرنے کی تھی ۔ ان کے ناول اپنے تیز رفتار ایکشن، مزاحیہ مکالمے، اور یادگار کرداروں کے لیے جانے جاتے تھے۔ کلیم کے کام میں اکثر حب الوطنی، وفاداری، اور اچھائی اور برائی کے درمیان جدوجہد کے موضوعات کی کھوج کی جاتی ہے۔ ان کی کہانیاں بین الاقوامی سیاست، جاسوسی، اور دہشت گردی کے پس منظر میں ترتیب دی گئی تھیں جو انہیں قارئین کے لیے دلکش بناتی ہیں۔ مظہر کلیم کے لکھنے کا انداز سادہ اور مؤثر تھا۔ ان کی زبان آسان اور عام فہم ہوتی تھی جو ہر طبقے کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی تھی۔ ان کے کرداروں کی گفتگو حقیقی اور روزمرہ کی زندگی سے قریب تھی، جو ان کی کہانیوں کو مزید دلچسپ بنا دیتی تھی۔
اثر اور میراث:
کسی بھی مستقل لکھنے والے ادیب کی طرح، پاکستانی ادب اور ثقافت پر مظہر کلیم کا اثر بھی بہرحال پڑا۔ ان کے کاموں نے مصنفین کی ایک نسل کو متاثر کیا اور ان کے ناولوں کو فلموں ، ٹیلی ویژن ڈراموں، اور اسٹیج ڈراموں میں ڈھالا گیا۔ کلیم کے تحریری انداز اور موضوعات نے اردو ادب اور پاکستانی سنیما جیسی دیگر صنفوں کو بھی متاثر کیا۔
ایوارڈز اور اعزازات:
مظہر کلیم کو پاکستانی ادب میں ان کی خدمات کے لیے متعدد ایوارڈز اور اعزازات ملے ۔ انہیں 1998ء میں پرائڈ آف پرفارمنس کے لیے صدر کا ایوارڈ اور 2007ء میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ کلیم کو 2011ء میں پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ۔
وفات:
مظہر کلیم کا انتقال 26 مئی 2018ء میں ہوا۔ مگر ان کی کتابیں آج بھی مقبول ہیں اور ان کے چاہنے والوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی۔ انہوں نے پاکستانی ادب کو ایک نئی سمت دی۔ ان کے کام کو ایک مدّت تک یاد رکھا جائے گا۔
مظہر کلیم کی زندگی اور کام ان کی لگن اور تحریر کے جذبے کا ثبوت ہیں۔ ان کی جاسوسی تھرلر اور ایکشن سے بھرپور ناولوں نے کئی دہائیوں سے قارئین کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے ۔جس سے انہیں پاکستانی ادب کے عظیم ترین مصنفین میں جگہ ملی ہے ۔ کلیم کی میراث مصنفین کی نئی نسلوں کو متاثر کرتی ہے اور ان کا کام پاکستان کے ثقافتی ورثے کا ایک قیمتی حصہ ہے۔ جاسوس تھرلر صنف کے ماہر کے طور پر ، پاکستانی ادب میں مظہر کلیم کی خدمات کو آنے والے برسوں تک یاد رکھا جائے گا ۔
تنقید:
کلیم کی عمران سیریز اکثر کڑی تنقید کا نشانہ بنی۔ مظہر کلیم کا پہلا عمران سیریز کا ناول "ماکا زونگا” تھا۔ اس ناول کے پیش لفظ میں وہ خود اسکا اقرار کرتے ہیں کہ انہوں نے اس ناول کو کئی برس پہلے این صفی کے نام سے شائع کروایا تھا۔
"یہ ناول جب شائع ہوا تھا تو اس وقت مارکیٹ میں ابن صفی کا سکّہ چلتا تھا اور کوئی بھی پبلشر کسی نئے نام کو متعارف کرانے کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا چنانچہ یہ ناول بھی این صفی کے لیبل کے تحت چھپا اس میں میں نے لکھا کہ اگر قارئین نئے ناموں کی حوصلہ افزای کریں تو ابن صفی کا سکؔہ کھوٹا ثابت ہو سکتا ہے ۔ ۔ ۔”
اس بات پہ سر آئزک نیوٹن کا قول یاد آتا ہے: If I have seen further it is by standing on the .shoulders of Giants
ابن صفی کے بارے میں کلیم کے یہ جملے ابن صفی کے چاہنے والوں کے لئے بےحد تکلیف دہ ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ اگر فلمساز، دلیپ کمار کے بجائے کسی اور اداکار کو فلموں میں لیتے تو دلیپ کمار کا "سکّہ کھوٹا ہو سکتا تھا”۔ یا محمد رفیع کے بارے میں کوئی کہے کہ اگر ہزاروں گیت رفیع کے علاوہ دوسرے گلوکار گاتے تو رفیع اتنا بڑا فنکار نہ ہوتا۔
سنہء 2018 میں دئے گئے ایک انٹرویو میں کلیم کہتے ہیں کہ "ابن صفی کے ہاں عمران کا کردار ایک مسخرے کا تھا جو اپنی الٹی سیدھی حرکتوں سے مزاح پیدا کرتا ہے لیکن میں نے ایسا نہیں کیا، میں نے عمران کے کردار کو اس کے ایک معیار تک پہنچایا اور معیار بھی ایسا جو لوگوں نے پسند کیا، یوں میں لکھتا چلا گیا”۔ لیکن اگلے ہی سوال کے جواب میں اس امر کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ لوگ ابن صفی کے کے تخلیق کردہ کرداروں کے علاوہ اور کرداروں کو پڑھنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ آپ نے اپنا کوئی کردار تخلیق کیوں نہ کیا تو انکا جواب تھا:
"نیا کردار تو میں بنا سکتا تھا، اب بھی بنا سکتا ہوں لیکن عمران جاسوسی ادب کا اتنا مقبول کردار ہے کہ لوگ اس کا منظر سے غائب ہونا برداشت نہیں کرتے۔ عمران ایک مقبول ترین کردار ہے لوگ اسے پڑھنا چاہتے ہیں۔”
عمران سیریز کے اصل خالق ابن صفی تھے۔ مظہر کلیم نے ابن صفی کی تخلیق کرد مشہور و معروف عمران سیریز پر قلم آزمائی کی۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ یہ سب مظہر کلیم نے اُس وقت کیا جب ابن صفی حیات تھے اور اپنے کرداروں پر ناول لکھ رہے تھے۔ مظہر کلیم نے نہ صرف ابن صفی کے کرداروں پر بلا اجازت لکھا بلکہ اپنے طور پر اس میں مزید توسیع کی اور نئے کرداروں کو متعارف کروایا۔ ابن صفی کی وفات کے بعد درجنوں مصنفین کی طرح مظہر کلیم نے بھی اس سلسلے کو اپنا ذریعہ معاش بنائے رکھا۔
حوالہ جات:
- مظہر کلیم ایم۔اے کی زندگی اور ادبی خدمات – اردو ڈائجسٹ، جنوری 2020ء
- عمران سیریز کے خالق: مظہر کلیم – روزنامہ جنگ، 15 مئی 2018ء
- مظہر کلیم: ایک جاسوسی ادب کا بے مثال نام – نوائے وقت، جولائی 2019ء
- مظہر کلیم ابن صفی سے اپنا تقابل کرتے ہوئے – 2018